1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ: پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

عاطف توقیر11 ستمبر 2014

شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند اپنے زیر قبضہ علاقوں میں مختلف کاروبار کرنے والے افراد کو کبھی خطوط اور کبھی ٹیلی فون پر پیغامات بھیجتے ہیں اور پیغام ہیمشہ ایک ہی ہوتا ہے، ’ہمیں بھتہ دو‘۔

https://p.dw.com/p/1DAHn
تصویر: Reuters

جون میں شمالی عراقی شہر موصل پر قبضے سے کئی ماہ پہلے سے ہی سنی شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے اس مہم کے لیے سرمایہ جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس مہم کا مقصد ساتویں صدی عیسوی کی طرز کی ایک ’خلافت‘ کا قیام تھا۔

موصل میں ایک مقامی دکان کے مالک کا کہنا ہے کہ جب ایک بار اس نے ان عسکریت پسندوں کو بھتّہ دینے سے انکار کیا، تو بطور دھمکی اس کی دکان کے بالکل قریب بم دھماکا کیا گیا۔ ’اگر کوئی شخص پیسے دینے سے پھر بھی انکار کرتا ہے، تو یہ عسکریت پسند اسے اغوا کر کے اس کے اہل خانہ سے تاوان کی رقم وصول کر لیتے ہیں۔‘

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس مقامی دکان دار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ رواں برس وہ تقریباﹰ چھ سات مرتبہ ان عسکریت پسندوں کو سو ڈالر ماہانہ کے حساب سے ادا کر چکا ہے۔

IS Kämpfer in Syrien 27.08.2014 Militärflughafen Tabka
یہ عسکریت پسند ایک وسیع علاقے پر قبضہ کیے ہوئے ہیںتصویر: picture alliance/AP Photo

اس شخص کے مطابق، ’بدلے میں ایک رسید دی جاتی تھی، جس پر تحریر ہوتا تھا، محترم۔۔۔۔۔۔ کی جانب سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ رقم مجاہدین کی مدد کے لیے۔‘

اس دکان دار کی کہانی سے یہ بات واضح ہے کہ کس طرح اسلامک اسٹیٹ ایک منظم انداز سے سرمایہ جمع کرتی رہی ہے، جسے بعد میں اس نے شمالی عراق اور شام کے ایک وسیع علاقے پر قبضے کے لیے استعمال کیا۔ موصل کے ایک اور رہائشی نے اسلامک اسٹیٹ کی اس بابت تکنیک کی وضاحت کچھ یوں کی:’’ان کا ٹیکس کا نظام خاصا منظم ہے۔ یہ عسکریت پسند چھوٹے کاروبار کرنے والوں، پٹرول پمپوں، جنریٹر مالکان، چھوٹے کارخانوں، بڑی کمپنیوں حتیٰ کہ ادویات بیچنے والوں اور ڈاکٹروں سے بھی پیسے وصول کرتے ہیں۔‘‘

روئٹرز کے مطابق اس تنظیم کو ابتدا میں غیر ملکی عسکریت پسندوں اور خلیجی ریاستوں سے خاصا سرمایہ ملتا تھا، تاہم اب سرمایے کی اس ترسیل پر سخت امریکی پابندیاں عائد ہیں، اسی لیے اس تنظیم نے داخلی طور پر ٹیکسوں، لوٹ مار اور تیل کی فروخت کا ایک نظام بنا لیا ہے، تاکہ اپنی خودساختہ ’اسلامی ریاست‘ کو چلا سکیں۔

روئٹرز کے مطابق یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے لیے یہ آسان نہیں کہ اس شدت پسند تنظیم کو مقامی طور پر سرمایہ جمع کرنے سے روک سکیں، کیوں کہ اس تنظیم کے زیر قبضہ علاقے بہت وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد ان کے زیر قبضہ علاقوں میں رہتے ہیں۔