1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جموں و کشمیر کو کوئی خودمختاری حاصل نہیں، بھارتی سپریم کورٹ

جاوید اختر، نئی دہلی
11 دسمبر 2023

جموں و کشمیرکی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے مودی حکومت کے اقدام کو بھارتی سپریم کورٹ نے آج قانوناً درست ٹھہرایا۔ وزیر اعظم مودی نے اسے تاریخی قرار دیا جبکہ کشمیری رہنماوں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر مایوسی ظاہر کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4a0SX
بھارتی سپریم کورٹ
بھارتی سپریم کورٹتصویر: Nasir Kachroo/NurPhoto/picture alliance

جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت (دفعہ 307) کو ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کے ذریعہ سن 2019 میں ختم کرنے کے فیصلے کو بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کے روز قانونی طورپر درست قرار دیا۔ عدالت عظمی نے اس کے ساتھ ہی ریاست کا درجہ واپس کرنے اور ریاست میں انتخابات کرانے کے احکامات بھی دیے۔

دفعہ 307 کو ختم کرنے اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے مودی حکومت کے پانچ اگست 2019 کے متنازع فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پرسپریم کورٹ نے آج فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کا فیصلہ آئینی تھا۔

بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی

 چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی صدارت میں پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے کہا کہ دفعہ 370 آئین کی ایک عارضی شق تھی۔ جموں و کشمیربھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور اسے دوسری ریاستوں سے علیحدہ کوئی خودمختاری حاصل نہیں ہے۔

دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد بھارتی وزیر داخلہ پہلی مرتبہ کشمیر کے دورے پر

خیال رہے کہ مودی حکومت نے اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کو پارلیمان نے بھی منظور کرلیا تھا۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سیاسی جماعتو ں نے تاہم حکومت کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

عدالت کا فیصلہ تاریخی اور امید افزا، مودی

 وزیراعظم نریندر مودی نے دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو سراہا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ "دفعہ 370 کی تنسیخ پر سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ تاریخی ہے اور آئینی طور پر پانچ اگست 2019  کے بھارتی پارلیمنٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتا ہے۔ یہ جموں، کشمیر اور لداخ میں ہماری بہنوں اور بھائیوں کے لیے امید، ترقی اور اتحاد کا ایک شاندار اعلان ہے۔"

انکا کہنا تھا کہ "عدالت نے اپنی انتہائی دانشمندی میں اتحاد کے اس جوہر کو مضبوط کیا ہے جسے ہم بھارتی کے طور پر ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتے اور قدر کرتے ہیں۔"

وزیر اعظم مودی کے مطابق "میں جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہمارا عزم غیرمتزلزل ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ ترقی کے ثمرات نہ صرف آپ تک پہنچیں بلکہ ہمارے معاشرے کے سب سے کمزور اور پسماندہ طبقات تک بھی پہنچیں جو دفعہ 370 کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔''

بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ،"آج کا فیصلہ صرف قانونی فیصلہ نہیں ہے۔ یہ امید کی کرن ہے، ایک روشن مستقبل کا وعدہ ہے اور ایک مضبوط، مزید متحد بھارت کی تعمیر کے ہمارے اجتماعی عزم کا ثبوت ہے۔"

کشمیری رہنماوں کو مایوسی

بھارتی کشمیر کے رہنماوں کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے کشمیری عوام کے لیے ایک مایوس کن دن قرار دیا۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیلصہ "آئیڈیا آف انڈیا کی شکست ہے۔ "  انہوں نے کہا کہ یہ مہاتما گاندھی کے اس بھارت کی بھی شکست ہے جسے پاکستان کو درکنار کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے لوگوں نے اپنایا تھا۔

جموں و کشمیر پر مرکز حملہ آور ہے، راہول گاندھی

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی رہنما محبوبہ مفتی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا،"میں جموں و کشمیر کے لوگوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ ہمت نہ چھوڑیں، سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ ایک پڑاو ہے منزل نہیں۔ ہمارے مخالفین چاہتے ہیں کہ ہم امید چھوڑ دیں، ایسا نہیں ہوگا۔"

خیال رہے کہ دفعہ 370 ختم کرنے سے ایک سال پہلے بی جے پی نے ریاست کی پی ڈی پی حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی تھی جس کے بعد وہاں صدر راج نافذ کردیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدرعمر عبداللہ نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مایوس ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا،" مایوس ہوں لیکن پست ہمت نہیں۔ جدوجہد جاری رہے گی۔ بی جے پی جہاں ہے وہاں تک پہنچنے میں دہائیاں لگ گئیں۔ ہم لمبی دوڑ کے لیے بھی تیار ہیں۔"

جموں و کشمیر کے سابق صدر ریاست، سابق گورنر اور کانگرس پارٹی کے رہنما کرن سنگھ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے حکومت سے جموں و کشمیر کے ریاست کا درجہ جلداز جلد بحال کرنے کی درخواست کی ہے۔

کشمیر: شہریوں کی ہلاکتیں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں

کرن سنگھ مہاراجہ ہری سنگھ کے بیٹے ہیں، جنہوں نے جموں وکشمیر کے بھارت کے ساتھ انضمام کے دستاویزات پر دستخط کیے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جو کچھ (دفعہ 370 کا خاتمہ) ہوا وہ قانونی تھا۔" سیاسی لحاظ سے خواہ کوئی اس کی جو بھی تشریح کرے لیکن قانونی لحا ظ سے یہ درست تھا۔"

دفعہ 370 ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کے خلاف جموں و کشمیر میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے
دفعہ 370 ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کے خلاف جموں و کشمیر میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے تھےتصویر: Khalid Khan/DW

انتخابات کرانے کا حکم

سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو حکم دیا کہ وہ جموں و کشمیر میں 30 ستمبر 2024 تک انتخابات منعقد کرائے۔ عدالت نے اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ جلد از جلد واپس لوٹانے کی بھی ہدایت دی، تاہم اس نے اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کی۔

'ہم کشمیر میں انتخابات کے لیے تیار ہیں'، مودی حکومت

خیال رہے کہ دفعہ 370 ختم کرنے کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کو دو حصوں، جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دے دیا گیا تھا۔

مودی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف جموں و کشمیر میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ سینکڑوں رہنماوں اور عام شہریوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، جن میں سے اب بھی بہت سے قیدو بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔

پاکستان نے بھی مودی حکومت کے اقدام کی مذمت کی تھی اور بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو کم کرتے ہوئے تجارت کو بھی معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔